مسلمانوں اور مغرب کی داستان میں خوف محض ایک مختصر باب
استنبول:- یہ چیز میرے لیے تشویش کا باعث ہے کہ اسلامو فوبیا یعنی اسلام کے بارے میں ایک بے بنیاد خوف اور مسلمانوں سے مخاصمت کا رویہ وہ بنیادی پیرا یہ بنتا جا رہا ہے جس کو مد نظر رکھ کر مغرب اور اسلام کے من جملہ تعلقات کو سمجھنے کی کوشش کی جا تی ہے۔استنبول ترکی کی یلدز ٹیکنیکل یونیورسٹی اوراستنبول کے صوبہ بیکوز کی میونسپلٹی کی قیادت میں پانچ یونیورسٹیوں پر مشتمل ایک گروپ نے اسی شہر میں 25-27 جنوری کے دوران اسلامو فوبیا پر ایک بین الاقوامی ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ ورکشاپ میں شریک امریکہ، برطانیہ، یورپ، روس اور ترکی کے ماہرین نے مغرب میں اسلام اورمسلمان مخالف جذبات میں نمایاں اضافہ کے مسئلہ کومتعین کرنے اور اس سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ دانشوروں کی بڑتی ہوئی تعداد مغربی سیاست اور پالیسیوں کو اسلامو فوبیا کی عینک سےدیکھ رہی ہے۔
تاہم ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کی جہتیں صرف باہمی خوف اور کشیدگی تک ہی معدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ اس سے کئی وسیع ہے۔
اس نوعیت کی اکثر ورکشاپوں کی طرح یہ ورکشاپ بھی بڑی جاندار اور معلومات سے بھرپور تھی۔ اس کے ذریعہ ہمیں اسلامو فوبیا کے واقعات کے پیچھے کہانیوں کی کہانیوں کو سمجھنے کا موقع ملا جن کا آج کل اکثر عالمی پریس میں ذکر ہوتا رہتا ہے۔ مزید برآں ہمیں ماہرین کے بہت متاثر کن نقطہ نظر کو بھی سننے کا موقع ملا جو مختلف مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا کے مخصوص پہلووں پر تحقیق کو اپنا میدان بنائے ہوئے ہیں۔ تاریخ دانوں کی گفتگو سے ہمیں موجودہ واقعات کو درست پس تاریخی تناظر میں دیکھنے کے لیے بھی رہنمائی ملی۔
بحث و مباحثہ کے دوران دو موضوعات خاص طور پر چھائے رہے۔ ورکشاپ میں شریک تقریباً ہر فرد نے اس بات سے اتفاق کیا کہ تمام مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر دانشور نے مغرب اور اسلام کے تعلقات کو “اسلامو فوبیا کے تاریخی تناظر” میں بیان کی کوشش کی۔
میں پوری اطمینان قلب کے ساتھ پہلے نقطہ نظر سے اتفاق کر تا ہوں لیکن اس بات سے متفق نہیں کہ اسلامو فابیا کا موجودہ سلسلہ مغرب کی اسلام کے ساتھ تاریخی مخاصمت کا محض ایک تسلسل ہے۔ یہ امتیاز کرنا اس لیے ضروری ہے کہ گو کہ ہم ماضی کو تبدیل نہیں کر سکتے لیکن ہم آج کے زور بیان، رویوں اور سیاست کو ضرور بدل سکتے ہیں۔
اسلامو فوبیا مغرب اور اسلام پر کتاب کا ایک باب تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا بنیادی موضوع نہیں ۔
اہم بات یہ ہے کہ تاریخی تسلسل کے پہلو کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ موجودہ سیاسی پالیسیاں صورت حال کو دو آتشہ کر رہی ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں کی آ بادی اور اس کی اپنی منفرد شناخت پر اصرار سے ثقافتی تبدیلی کا مستقل اندیشہ اور خوف جنم لے رہا ہے۔
امریکہ میں اسلامو فوبیا کا سبب 11ستمبر کے دہشت گرد حملوں پر بڑتا ہواغصہ اور عرب اسرائیل تنازعہ ہیں۔ مثال کے طور پر بن غازی مسئلہ پر حالیہ ڈیبریفنگ کے دوران اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح کا بار بار استعمال کیا گیا جس کے ذریعہ مذہب کا پرتشدد جرائم اور قتل کے ساتھ اس طرح رشتہ جوڑا گیا کہ ایسا آج تک کسی بھی گروپ کی طرف سے پر تشدد انتہا پسندی کے معاملہ میں نہیں کیا گیا۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اسلام اور دہشت گردی کے بارے میں اپنے طرز تکلم میں ایک تصوراتی ماضی سے ابھرنے والے بے بنیاد خوف میں کمی کی کوشش کے مقابلہ میں زیادہ آسانی سے تبدیلی لا سکتے ہیں۔
مغرب میں تارکین وطن مسلمانوں کی کامیابیاں اور بین المذاہب تعلقات میں پیش رفت دو ایسے میدان ہیں جن کو اسلامو فوبیا پر بحث میں پس منظر میں نہیں دھکیلا جا سکتا۔
مغرب میں دیگر تحریکوں کی نسبت کمزور لیکن ایسی تحریکیں اور ادارے موجود ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کا سلسلہ استوار کرنے پر پوری طرح یکسو ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک مثال کامن گراونڈ نیوز سروس کی ہے۔ ایسی تحریکوں اور اداروں کی موجودگی اور فعالیت اسلامو فوبیا کی لہر کو غلط ثابت کرتی ہے۔ اسلامو فوبیا کے خلاف سامنے آنے والی سب سے جانداراور کڑی تنقید میں کئی مغربی دانشور اور صاحب علم بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کئی غیر مسلم ہیں جن میں سے جان ایسپوزیٹو، دیپا کماراور پیٹر گوٹسچارکٍ جیسے افراد کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔
بلاشبہ مسلم اکثریت اورمغربی ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ بلکہ محاذ آرائی پر مبنی رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ان کے درمیان مستقل بنیادوں پرمکالمہ اور غیر منظم تزویراتی اور ثقافتی تعاون بھی کار فرما رہا ہے۔ درست ہے کہ مغرب میں اسلامو فوبیا میں شدت آتی جا رہی ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا لیکن ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً ہر مغربی ملک میں متمول، متنوع اور ثقافتی رنگا رنگی سے مالا مال مسلمان کمیونٹیز وجود میں آ چکی ہیں۔ یورپ کا دوسرا بڑا مذہب بن کر اسلام اس کی ثقافتی شناخت کو تبدیل کر رہا ہے۔
تاریخ بجا طور پر بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے لیکن ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جس طرح موجودہ سیاست اور مجرمانہ حملوں کے جواز کے لیے اسلام کا غلط استعمال عمل میں لایا گیا ہے اس سے اسلامو فوبیا کو تحرک ملتا ہے۔ ہم تاریخ کو دوبارہ مدون تو نہیں کر سکتے لیکن ہم سیاست اور عوامی مباحثہ کو تو نئے خطوط پر استوار کر سکتے ہیں تاکہ تعصب پر قابو پا یا جا سکے اور رایک دوسرے کے بارے میں جان کاری بڑھ سکے۔
ہر دو اطراف میں ایسے افراد کافی تعداد میں موجود ہیں جو مغرب اور مسلمان ممالک کے درمیان مثبت اورباہمی مفاد پر مبنی تعلقات کو اہم سمجھتے ہیں۔ اگر یہ فکر ہماری ایک دوسرے کے لیے زیر استعمال زبان و بیان کو نئی شکل دے سکے تو مفاہمت یا کم از کم خوف کی جگہ امن اس کتاب کا حاصل بن سکتا ہے جو اسلام اور مغرب کی داستان بیان کرتی ہے۔
Article available in: English, French, Indonesian, Arabic