دہشت گردی کے خلاف ایک فتوٰی
نیوآرک، دِلآویر: حال ہی میں برطانیہ کے دورے پر آئے ہوئے پاکستان کے اسلامی سکالر ڈاکٹر طاہرالقادری نے دہشت گردی کے خلاف 600 صفحات پر مُشتمل فتوٰی جاری کیا ہے۔ اِس فتوے کے اہم اثرات مُرتّب ہو سکتے ہیں کیونکہ اس میں رائے جامعیت کے ساتھ اور براہِ راست پیش کی گئی ہے اور کِسی مسئلے سے کنّی کترانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
یہ فتوٰی ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بالخصوص پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ جو مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام مغربی قوّتوں کے حملے کی زد میں ہے، اُن کی نظر میں اگر دہشت گردی کا تھوڑا بہت جواز تھا بھی تو یہ فتوٰی آنے کے بعد دہشت گرد اُس سے محروم ہو جائیں گے۔
طاہر القادری پاکستان کے ایک معروف امام ہیں جن کا حلقۂ ارادت کافی وسیع ہے۔ انہوں نے منہاج القرآن انٹرنیشنل کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا ہے جس کا مقصد مختلف کمیونٹیز کے مابین تفہیم پیدا کرنا ہے۔ آپ روایتی اسلامی علوم سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ جو لوگ تشدد آمیز انتہا پسندی میں ملوّث ہیں یا ایسا کرنے والوں کے ساتھ ہمدردیاں رکھتے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق سلفی نظریے کے حامل لوگوں میں نسبتاً حال ہی میں ابھرنے والے ایک رجحان سے ہے ۔ یہ لوگ مذہبی اقتباسات کی لُغوی تشریح کو مانتے اور صدیوں پر محیط اسلامی غور وفِکر اور نظریات کو مسترد کرتےہیں ۔
جنوبی ایشیا میں سلفی نظریے کی پیوند کاری زیادہ پُرانی بات نہیں ہے اور خوش قِسمتی سے خطّے میں اِس کی جڑیں گہری نہیں ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں اور بیرونِ مُلک مقیم پاکستانیوں میں طاہر القادری کی پیروی کرنے والے خاصی بڑی تعداد میں ہیں۔ اصولی طور پر انہیں اس سرزمین پر فساد برپا کرنے والوں کی آواز پر آسانی کے ساتھ غالب آجانا چاہیے۔
طاہرالقادری کا 600 صفحات پر مشتمل فتوٰی طاقت کے استعمال پر اسلامی اصولِ قانون کی مکمل تاریخ ہے جس میں اِس موضوع پر مختلف مکاتبِ فکر کے مسلم سکالرز اور قانون دانوں کی آرأ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ دستاویز اُن روایتی اور اخلاقی پابندیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کرتی ہے جو صدیوں پر محیط عرصے میں کیے گئے اخلاقی اور قانونی فیصلوں میں فقہا نے قوت کے جائز استعمال پر عائد کی ہیں۔
قادری کے اس فتوے میں کوئی بات بھی نئی نہیں اور یہی سب سے اچّھی بات ہے۔ انہوں نے اسلامی ماخذات کی کوئی نئی تفسیر بیان نہیں کی اور نہ ہی وہ پہیّے کو دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُن کا کمال ہمیں یہ دکھانے میں ہے کہ اسلام نہ صرف دہشت گردی کی ممانعت کرتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے دہشت گردوں کا ٹھکانہ جہنّم میں ہے۔
اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ کتنے طویل عرصے تک مسلمان خود کُشی کو حرام سمجھتے رہے ہیں اور اسلام کا اپنے آغاز ہی سے یہی مؤقف ہے۔ قدیم عُلما کی آرأ کا مجموعہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام میں عام شہریوں، عورتوں اور بچّوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی کتنی سختی کے ساتھ ممانعت کی گئی ہے۔
انتہا پسند اور ان کے ساتھ ہمدردیاں رکھنے والے سکالرز کوئی ایک بھی ایسی دستاویز پیش نہیں کر سکتے جو طاہر القادری کے اِس فتوے کو نیچا دکھا سکے۔
انتہا پسند مسلم دنیا میں اپنے بنیاد پرست ایجنڈے کو عملی شکل دینے کے لئے دو عناصر پر انحصار کرتے ہیں۔ اوّل: وہ مغرب اور اِس کے اتحادیوں کے خلاف مذہبی جنگ کو جائز قرار دلانے کے مقصد سے جہاد کے اصول کی کِسی سیاق وسباق کے بغیر کی گئی انوکھی اور بلا جواز توضیحات پیش کرنے کے لئے مسلمانوں میں الوہی ناخواندگی کی بلند شرح کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوم: مغربی افواج کی طرف سے گزشتہ دو صدیوں کے دوران مسلم علاقوں پر مختلف حملوں اور قبضوں کے خلاف مسلمانوں میں پائے جانے والے غم وغُصّے کو بھی انتہا پسندوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے۔
اِس صورتحال میں اگر مغربی طاقتوں کے ہاتھوں فلسطینیوں، عراقیوں، افغانوں اور پاکستانیوں کو ملنے والے مصائب کو بھی شامل کرلیں تو یہ بات سمجھ میں آنے لگتی ہے کہ بعض مسلم نوجوان انتہا پسند مذہبی رہنماؤں کی پیش کردہ اسلامی ماخذات کی غیر اسلامی توضیحات پر ایمان کیوں لے آتے ہیں۔
کیا طاہر القادری کا فتوٰی کوئی ایسی جادو کی گولی ہے جو سارا غُصّہ، اضطراب اور نفرت ختم کر دے گی؟ یقیناً نہیں۔ کیا اِس سے دہشت گردی کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے رجحان کی بڑے پیمانے پر مُذمّت ہوگی؟ یقینی طور پر جی ہاں، بشرطیکہ ذرائع ابلاغ اِس پر بھرپور اور مُستقل توجہ دیں۔
بدقسمتی سے مرکزی دھارے میں شامل ذرائع ابلاغ نے شیعہ عالم آیت اللہ العُظمٰی یوسف الثانی اور سعودی سکالر الحبیب علی الجفری جیسے لوگوں کی طرف سے خوُد کُشی کے خلاف جاری کیے گئے فتاوٰی پر نسبتاً بہت کم توجہ دی تھی۔
پاکستان میں طاہر القادری کی ساکھ اور مسلمانوں اور مساجد پر دہشت گردوں کے اندھا دُھند حملوں کی بنا پر اُن کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت دونوں کے اکٹھے ہونے کی وجہ سے یہ فتوٰی انتہا پسندوں کو اکیلا کر سکتا ہے۔ اُمید ہے کہ انتہاپسند گروہوں کے حامی یا تو اپنی سیاست پر نظرِ ثانی کریں گے یا تشدد کے رجحان کی کم از کم اعلانیہ اور فعال طریقے سے حمایت کرنے سے باز رہیں گے۔
طاہر القادری اور اُن کا ادارہ یہ اُمید رکھتے ہیں کہ مغرب میں پایا جانے والا یہ تصوّر کہ اسلام ہی دہشت گردی کی اصل وجہ ہے، درست ہو جائے گا۔ مغرب میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عام مسلمان دہشت گردی کی مخالفت نہیں کرتے یا جو اِس پر مُصر ہیں کہ دہشت گردی اسلامی اقدار کی پیداوار ہے وہ ایسا اپنے سیاسی مفادات کی وجہ سے کہتے ہیں اور واضح طور پر “اسلام فوبیا” کا شکار ہیں۔ وہ اپنا ذہن کبھی تبدیل نہیں کریں گے۔
تاہم جو لوگ ابھی تک اِس بات سے بے خبر ہیں کہ بیشتر مسلمان دہشت گردوں کی مُذمت کرتے ہیں اور یہ کہ اسلام میں کوئی بھی بات ایسی نہیں جو دہشت گردی کے حق میں جاتی ہو، اِس فتوے کے بعد امکان ہے کہ وہ اس حقیقت سے واقف ہو جائیں۔
Article available in: English, French, Indonesian, Arabic