امریکی مُسلمان سب سے زیادہ روادار ہیں
نیو آرک، دلآویر: گزشتہ دو سالوں کے دوران ذرائع ابلاغ کی کوریج کا مطالعہ امریکی مُسلمانوں کے حالات اور باقی قوم کے ساتھ ان کے تعلقات کی گمراہ کُن تصویر پیش کرتا ہے۔ فورٹ ہُڈ پر میجر ندال ملک حسن کا ہولناک حملہ، جون 2010 میں ٹائمز سکوئر میں بم دھماکے کی کوشش، اینٹی شریعت بریگیڈ کی تند وتیز بیان بازی اور قانون سازی میں ایکٹوازم اور قدامت پرست سیاست دانوں، صحافتی شخصیات اور سیاست کا کاروبار کرنے والوں کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو مُسلسل ہدف بنانے کا رُجحان یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ میں مسلمانوں کی زندگی یقیناً بہت کٹھن گزرتی ہوگی۔
لیکن اس کے برعکس حال ہی میں کیے گئے بڑے سروے اور مُفصّل مطالعات سے خصوصاً سب سے زیادہ زیرِ بحث آنے والے تین موضوعات یعنی بنیاد پرستی، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بارے میں امریکی مسلمانوں کی سوچ اور مذہبی رواداری کے حوالے سے ان کے حالات کا زیادہ ہمہ گیر اور حوصلہ افزا نقشہ سامنے آتا ہے۔
امریکی مسلمانوں میں بنیاد پرستی کے رجحان کے حوالے سے امریکی وزارتِ انصاف کی طرف سے 2010 میں شمالی کیرولینا کی دو یونیورسٹیوں کے محققین کے ذریعے کرائے گئے ایک مطالعہ کے مطابق دہشت گردی کے ایسے واقعات کی تعداد حیران کُن طور پر انتہائی کم ہے جن کا ارتکاب واقعی مُسلم امریکیوں نے کیا ہے۔ محققین کے مطابق اس کم تعداد کا سہرا امریکہ کی بہت سی مُسلم کمیونٹیز اور مساجد کی طرف سے کی جانے والی بنیاد پرستی مخالف کوششوں کے سَر ہے۔ اس مُفصّل مطالعہ سے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ یقین ملتا ہےکہ امریکہ میں مُسلم بنیاد پرستی کا خوف ضرورت سے زیادہ پھیلا دیا گیا ہے بلکہ اس حقیقت بھی اُجاگر ہوتی ہے کہ امریکی مساجد انتہا پسندی کا ماخذ نہیں، جیسا کہ دائیں بازو کے بعض پنڈت اور سیاست دان اصرار کرتے ہیں، بلکہ انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد میں یہ مساجد اتحادی ہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ امریکی مسلمان امریکہ کے بارے میں کیا تصوّرات رکھتے ہیں، صورت حال مزید زیادہ حیرت انگیز ہے۔ گیلپ کی طرف سے دو سال کے عرصے میں ’مُسلم امریکی: عقیدہ، آزادی اور مُستقبل‘ کے عنوان سے کیے گئے ایک بڑے نمونے والے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ کِسی بھی دوسری کمیونٹی کے ارکان کے مقابلے میں مُسلم امریکیوں میں یہ دعویٰ کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے کہ وہ ’امریکہ میں خوش باش زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘ یہ صورت حال ایک ایسی کمیونٹی کے لئے انتہائی غیر معمولی ہے جو ذرائع ابلاغ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور امریکی کانگریس کی طرف سے شدید جانچ پڑتال کا ہدف بنی ہوئی ہے۔
خراب معیشت اور نا پسندیدہ سیاست میں سے کسی نے بھی امریکہ پر مُسلم امریکیوں کا اعتماد کَم نہیں کیا۔ دَس میں سے آٹھ امریکی مسلمان صدر براک اوبامہ کو پسند کرتے ہیں، جن کی پسندیدگی کی شرح ان کے صدر بننے کے بعد سے لے کر آج تک پست ترین سطح پر پہنچ چُکی ہے۔ اور امریکی مُسلمانون کو امریکہ کے سیاسی نظام کی دیانت داری پر کسی بھی دوسری کمیونٹی سے زیادہ اعتماد ہے۔
لیکن مذہبی رواداری سے متعلق نتائج شاید سب سے زیادہ حوصلہ افزا ہیں۔ گیلپ رپورٹ بتاتی ہے کہ امریکی مُسلمان اور مورمون مُلک میں مذہبی طور پر سب سے زیادہ روادار گروپ ہیں۔ صرف آٹھ فیصد امریکی مُسلمان دوسرے عقائد سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں جب کہ 92 فیصد مُسلمان دوسرے عقائد کے بارے میں ’روادار‘ یا ’روادار اور خیر مقدمی‘ ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ کثرتیت کی تعظیم کا یہ جذبہ دراصل خود مذہب کی تعظیم کی ایک جھلک ہے۔ جو مُسلمان اپنے عقیدے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں وہ فطری طور پر ان لوگوں کے لئے اُنس محسوس کرتے ہیں جو انہی کی طرح خدا کا احترام کرتے ہیں۔
مجھے اُمید ہے کہ جو امریکی ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ’شریعت مخالف‘ سرگرمیوں سے گمراہ ہوگئے ہیں وہ اس رپورٹ کا مطالعہ کریں گے۔ یہ رپورٹ ان دعووں کو جھٹلاتی ہے کہ مُسلمان، جو امریکہ کی سب سے زیادہ روادار مذہبی کمیونٹی ہیں، اپنے عقیدے کو دوسروں پر مُسلّط کرنا چاہتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ اس رپورٹ میں ایک ضمنی کہانی بھی موجود ہے جو خصوصاً ان مُسلمانوں کے لئے ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سارے یہودی اسلام اور مسلمانوں پر ’غلبہ‘ حاصل کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ گیلپ سروے کے مطابق امریکہ میں رہنے والے یہودیوں کو موجودہ اسلام فوبیا اور مُسلمانوں کے خلاف تعصب پائے جانے کا احساس کِسی بھی دوسرے کمیونٹی کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ درحقیقت امریکی یہودیوں کی 80 فیصد تعداد، جو خود مُسلم امریکیوں (93 فیصد) کے بعد سب سے زیادہ ہے، یہ یقین رکھتی ہے کہ مُسلمان امریکہ کے وفادار ہیں۔ امریکی یہودیوں میں اس بات پر یقین کرنے کا امکان سب سے کم ہے کہ امریکی مُسلمانوں کی ہمدردیاں القاعدہ کے ساتھ ہیں۔ عرب اسرائیل تنازعہ کے بارے میں بھی امریکہ میں رہنے والے یہودی اور مُسلمان ایک جیسی رائے رکھتے ہیں: 78 فیصد یہودی اور 81 فیصد مُسلمان اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی ریاست قائم کرنے کے تصوّر کی حمایت کرتے ہیں۔
مجھے اُمید ہے کہ ان نتائج سے یہودی مُسلم مکالمے اور تعلقات کو مزید فروغ مِلے گا۔
مجھے یہ بھی اُمید ہے کہ اب گیارہ ستمبر کے سانحہ اور اس کے عواقب کا جائزہ لیتے ہوئے ہم اپنی سوچ کو سچائی اور حقائق کی بنیاد پر تشکیل دیں گے اور ان تاریک محرّکات کو مسترد کردیں گے جن کا نتیجہ ناروے والے سانحے کی شکل میں برآمد ہوا تھا۔
Article available in: English, French, Indonesian, Arabic, Hebrew