امریکی انتخابات میں اسلاموفوبیا پر غلبہ پانے کے امکانات
نیوارک، ڈیلاور ۔ 2012 کے انتخابات سے قبل امریکی بحث میں اسلام ایک اہم حصہ بن چکا ہے اور ہر جگہ امیدوار سیاسی فائدے کے لئے اسلام پر کوئی پوزیشن اختیار کرنے کے مشتاق نظر آتے ہیں۔ ملک بھر میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا نے کچھ مسلمانوں کے لئے مساجد تعمیر کرنا اور اپنے مذہب پر عمل کرنا مشکل بنا دیا ہے حالانکہ ایسا کرنے کا ان کا حق امریکی دستور کی پہلی ترمیم میں شامل کیا گیا ہے۔
صدارتی نامزدگی کی حالیہ دوڑ میں کچھ صدارتی امیدوار ان آبادیوں میں اپنی مقبولیت ابھارنے کی کوشش میں اسلام اور مسلمانوں کا ذکر منفی انداز میں کر رہے ہیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ اسلام یا مسلمانوں کے حوالے سے شکوک کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر سابقہ صدارتی امیدوار ہرمن کین نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ منتخب ہو گئے تو اپنی کابینہ میں مسلمانوں کا تقرر نہیں کریں گے۔
یہ موجودہ رجحانات کا اظہار ہے۔ 2010 میں کانگریس کے لئے چند ریپبلیکن امیدواروں نے مجوزہ مسلم کمیونٹی مرکز پارک 51 ﴿جسے ٰگراؤنڈ زیرو مسجدٰ کے نام سے مشہور کر دیا گیا﴾ اور اسلامی قوانین کے ماخذ اصولوں یعنی شریعت کے خوف کو رائے دہندگان کو اپنے مقصد پر اکٹھا کرنے کے لئے استعمال کیا۔ کانگریس کے رکن منتخب ہونے والے پیٹر کنگ جیسے رہنماؤں نے کمیٹیوں میں اپنی تقرریوں کو یہ دلائل دینے کے لئے استعمال کیا کہ امریکی مسلمان بری طرح انتہا پسند ہو چکے ہیں۔ حالانکہ بارہا متعدد سروے اور رپورٹیں اس جھوٹ کی قلعی کھول چکی ہیں۔
تاہم ریپبلیکن پارٹی میں صدارتی امیدوار مٹ رومنی اور رون پال جیسے رہنما اس رویئے سے اجتناب کر رہے ہیں اوران کے ساتھ ساتھ نیو جرسی کے گورنر کرس کرسٹی جیسے اور بھی کئی ہیں جنہوں نے بہت مخالفت کے باوجود امریکی مسلمان سہیل احمد کی ریاستی جج کے طور پر تقرری کی۔
انفرادی رواداری اور دوسرے گروپوں کا خوف صرف سیاسی اشرافیہ تک محدود نہیں ہے۔ ستمبر 2011 میں دو تھنک ٹینکوں بروکنگز انسٹی ٹیوٹ اور پبلک فارن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جا نب سے کئے گئے ایک مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ 47 فی صد سے زائد امریکی یہ کہتے ہیں کہ اسلام اور امریکی اقدار میں مطابقت نہیں ہے اور اتنی ہی تعداد امریکہ میں اسلام کی موجودگی کے بارے میں بے اطمینانی کا اظہار کرتی ہے۔
کئ واقعات نے مل کر امریکیوں کے ذہنوں میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں ناپسندیدگی پیدا کی ہے۔ ان میں گیارہ ستمبر کے حملے اور ان کے نتیجے میں ایک دہائی پر محیط ٰدہشت گردی کے خلاف جنگٰ جس میں امریکی فوج افغانستان اور عراق میں کارروائیوں میں شامل ہوئی، امریکہ میں دہشت گرد حملوں کی مسلمانوں کی کوششیں اور مسلم دنیا میں سیاسی اور سماجی واقعات کی منفی کوریج شامل ہیں۔ اسلاموفوبیا کی موجودہ ساخت بہت پیچیدہ واقعات کے ایک سلسلے اور ان سے جنم لینے والے مباحث کا نتیجہ ہے۔
اس کے باوجود مسلمانوں پر سنگ زنی کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے امریکی رہنماؤں کو عدم رواداری کا مقابلہ کرنے کے زیادہ مشکل ہدف کی جانب رہنمائی کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ بہر صورت یہ ملک مذہبی رواداری، کثرتیت اور جمہوری آزادی کے آدرشوں پر قائم کیا گیا تھا۔
یہ مؤقف اپنانا مشکل نہیں ہے کہ امریکی مسلمان معاشرے میں اچھی طرح رچے بسے ہیں اور قوم کا ایک مثبت اثاثہ ہیں۔ تحقیق اور سروے کے ادارے گیلپ کی اگست 2011 میں شائع ہونے والی ایک بڑی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکی مسلمان معاشرے میں بخوبی مدغم اور وفادار شہری ہیں۔ در حقیقت یہ تحقیق یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ اسلاموفوبیا زیادہ تر امریکی مسلمانوں کی معاشی بہتری پر اثر انداز نہیں ہو رہا۔
میں جانتا ہوں کہ کیوں 2012 کے کچھ صدارتی امیدوار مذہبی عدم رواداری کو منفی طور پر استعمال کرنے کی ترغیب کے آگے سپر انداز ہو رہے ہیں کیونکہ ستمبر 2011 کے ایک بروکنگز سروے کے مطابق ریپبلیکنز میں اسلام کے حوالے سے منفی رویوں کی شرح قومی رجحان کی نسبت زیادہ ہے۔ لیکن یہ ان امیدواروں کے لئے عملاً ظاہرکرنے کا ایک موقع بھی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں صدارتی سطح کے امیدوار ہیں اور وہ امریکی دستور کی روح کو سمجھتے ہیں اور انتخابی حکمت کاروں کی تجاویز کے باوجود وہ اس روح کو قائم رکھنے کے لئے پرعزم ہیں۔
صدارتی امیدواروں کو کم تر اور عام رجحان کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ متعدد غیر مسلم سیاسی اور مذہبی رہنما بشمول خاص و عام حالیہ برسوں میں مسلمانوں کے ساتھ باضابطہ بین العقائد مکالمے میں مشغول رہے ہیں۔ جب بھی اسلاموفوبیا کے واقعات نے جنم لیا ان میں سے کئی اپنے مسلمان دوستوں اور عمومی طور پر امریکی مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ واقعات عموماٰ مساجد کی تعمیر کی مخالفت اور مسلمان رہنماؤں کے خلاف جھوٹے الزامات کی شکل میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
قدامت پسندوں کی صفوں میں گورنر کرسٹی اور ایونجلیکل مسیحی پادری رک وارن جیسے با شعور رہنما کافی ہیں جنہوں نے کامیابی سے امریکی مسلمانوں سے روابط بنائے ہیں۔ وارن نے جو جنوبی کیلیفورنیا میں ایک بڑے چرچ کے سربراہ ہیں تنقید کے باوجود جولائی 2011 میں اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ کی سالانہ کانفرنس میں شرکت اور تقریر کی۔ کانفرنس میں انہوں نے مسلمانوں اور مسیحیوں کو ساتھ چلنے کو کہا۔
ریپبلیکن امیدواروں کو ان رہنماؤں اور ان کی مہارتوں سے سیکھنا چاہئے۔ عدم رواداری کے مقابلے میں صدارتی سطح کی لیڈرشپ کا مظاہرہ کرنے کا نتیجہ انجام کار ان امیدواروں کی انتخابی مہموں کے ساتھ ساتھ ملک میں عمومی بین المذاہب ماحول کے لئے بھی اچھا ہو گا۔
Article available in: English, French, Indonesian, Arabic, Hebrew