پاک امریکہ تعلقات ایک نازک موڑ پر
نیوآرک، دلآوئر: اٹھارہ اگست کو جنرل پرویز مشرف کےمستعفی ہونے کے ساتھ ہی امریکہ کے ساتھ خارجہ پالیسی اور سیکورٹی کے معاملات پر پاکستان کے تعاون کا ایک بے مثال عہد بھی ختم ہوگیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دونوں اتحادیوں کے درمیان گفت و شنید کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہے۔ امریکہ کو اس وقت ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ میں پاکستان کی طرف سے تعاون کی تازہ یقین دہانی درکار ہے جب کہ پاکستان ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ بدلے ہوئے حالات میں مختلف شرائط کے تحت نئے تعلقات استوار کرنے کا خواہشمند ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات کے لئے یہ سال بہت اہم ہے۔ پرویز مشرف کے استعفٰی اور آئندہ چند مہینوں میں صدر جارج ڈبلیو بُش کی اقتدار سے رخصتی کے بعد دونوں ملک از سرِ نو اپنی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے نئے سرے سے اپنی پالیسیاں وضع کررہے ہوں گے۔ 2009 کے آخر تک ہم ایک ایسی نئی سیاسی و جغرافیائی صورتحال کا مشاہدہ کریں گے جو اس بات کا تعین کرے گی کہ امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی شکل کیا ہوگی۔
گیارہ ستمبر کے واقعے سے پہلے کے دوسالوں میں 1999 سے 2001 تک مشرف کو ایک ایسے آمر کے طور پر دیکھا جاتا تھا جس نے پاکستان میں جمہوریت کو برباد کیا اور مغرب کے لئے ناپسندیدہ رویّہ اپنایا، اور جسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پرے جھٹک دیا تھا۔ لیکن راتوں رات وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا سب سے پکّا اتحادی بن گیا جسے لندن اور واشنگٹن میں ایک دوست کی حیثیت سے خوش آمدید کہا گیا۔
‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ’ ابتدا میں تو پرویز مشرف کے لئے اہمیت اور مقبولیت لے کر آئی لیکن بعد میں شکست اور ہزیمت کا باعث بن گئی۔ پاکستان کا اتحادی اور قیمتی اثاثہ سمجھے جانے والے طالبان کو یکدم چھوڑکر امریکہ کے ساتھ شامل ہونے کے فیصلے نے پرویز مشرف کو مغرب اور بہت سے پاکستانیوں کی نظر میں بھی فوراً مقبول کردیا۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کے جذباتیت کو نظر انداز کرنے کے فیصلے کو سراہا اور ان کی حقیقت پسندی کی تعریف کی۔ طالبان سے پیچھا چھڑانے کے فیصلے کو بھی درست اقدام کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ یہی پاکستان کے قومی مفاد میں تھا۔
تاہم 2007 سے پرویز مشرف مسلسل ناکام ہورہے تھے۔ طالبان اور القاعدہ دوبارہ مستحکم ہورہے تھے اور امریکہ اور افغانستان دونوں ہی علاقے میں اتحادیوں کی تمام تر ناکامیوں کا الزام مشرف پر عائد کرنے لگے تھے۔ پاکستانیوں پر اب یہ واضح ہونے لگا تھا کہ ان کا ملک اب جزوی طور پر ایک ناکام ریاست بن گیا ہے جو تباہی کی طرف جارہا ہے اور یہ کہ حکومت اپنے قومی مفاد کی بجائے واشنگٹن کی ضروریات پوری کرنے کے بارے میں زیادہ فکرمند ہے۔
مشرف کے بارے میں یہ تاثر پھیلنے سے کہ وہ دراصل واشنگٹن کا آدمی ہے، انتہا پسند اور اعتدال پسند، سیکولر اور سیاسی مذہبی لوگ، سب متحد ہوگئے۔ مشرف کو مقبول بنانے میں کلیدی کردار ان کے اس بات پر اصرار کا تھا کہ ان کی تمام پالیسیاں ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہیں۔ لیکن ان کا یہ دعوٰی جب پاکستانیوں کی نظر میں اپنی ساکھ کھو بیٹھا تو پھر پرویز مشرف فوراً “امریکی ایجنٹ” کا روپ اختیار کر گئے۔
جب کوئی شخص پاکستانیوں کے ساتھ بات کرتا ہے تو اسے امریکہ اور اپنے ملک کے سیاسی حقائق پر ان کی خفگی اور جھنجھلاہٹ واضح محسوس ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ” ہاں ہمیں پتہ ہے کہ گیارہ ستمبر 2001 کو تین ہزار بے گناہ امریکی ہلاک ہوگئے تھے۔ لیکن اس کے نتیجے میں اب تک لاکھوں مسلمان مارے جا چکے ہیں۔”
پاکستانیوں نے اب ردِّ عمل کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے اور مشرف کو ٹھوکر مار کر باہر پھینکنا اس سمت میں پہلا قدم ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ مشرف کا انجام ایک ایسے خطرناک موڑ کا آغاز ہے جو پاکستان ابھی ابھی مُڑا ہے۔
مشرف کے جانے کے بعد اب امریکہ کے پاس نہ کوئی اتحادی ہے اور نہ ہی کوئی پالیسی، کیونکہ علاقے میں اس کی پالیسی مشرف ہی تو تھا۔ اب پاکستان کی قیادت امریکی طریقۂ کار سے بنیادی اختلاف رکھتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ پاکستان میں انتہاپسندی کا مسئلہ محض طاقت کے استعمال سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ یہ بھی محسوس کرتی ہے کہ امریکہ بذاتِ خود اس مسئلے کا ایک جزو ہے۔ خطّے کے بارے میں امریکی پالیسیاں انتہاپسندی کی آگ پر تیل کا کام کرتی ہیں اور طاقت کا سختی سے استعمال ان لوگوں کو بھی مزید الگ تھلگ کر دیتا ہے جو ابھی بنیاد پرست نہیں بنے۔
پاکستان کی نئی حکومت میں شامل بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو آرام کے ساتھ پُرامن طریقے سے اور سمجھوتے کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ بنیادی طور پر وہ طالبان کے ساتھ مصالحت اور ان کے لئے گنجائش نکالنے کے خواہشمند ہیں جب کہ امریکہ انہیں مکمل طور پر نیست و نابود کرنا چاہتا ہے۔ جب تک امریکہ پاکستان کی شرائط کے مطابق عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، اسے اسلام آباد کی فعال مدد کے بغیر، بلکہ شاید پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی درپردہ بھرپور مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کام کرنا پڑے گا۔
امریکہ کا پرویز مشرف پر انحصار اور طاقت پر بھروسہ کرنے کی پالیسی سرے سے ہی غیر دانشمندانہ حکمتِ عملی تھی جو مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اسامہ بن لادن اب بھی آزاد ہے اور القاعدہ مضبوط اور فعال ہے۔ طالبان بھی ابھی یہیں ہیں اور اب وہ مزید طاقتور ہوچکے ہیں اور ایک ایک کرکے ناٹو کے حربوں کو آشکار کرتے جارہے ہیں۔ پاکستان، جو ایک طویل عرصے سے امریکہ کا اتحادی اور ایٹمی طاقت ہے، عدمِ استحکام کا شکار ہے اور تیزی سے غیر دوستانہ اور بنیاد پرست ہوتا جارہا ہے۔
تاوقتیکہ امریکہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرے اور ایک نئی پالیسی اختیار کرے، ایک ایسی پالیسی جو اسلام آباد اور امریکہ کے تمام سمجھدار حلقوں سے مشاورت کرکے بنائی گئی ہو، تمام فریق جن کے مفادات داؤ پر لگے ہیں یعنی ناٹو، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، پاکستان اور افغانستان، ان کے لئے آنے والا وقت بہت کٹھن ہوگا۔
امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات اس وقت بہت نازک دور سے گزر رہے ہیں اور یہ اشد ضروری ہے کہ دونوں اطراف اس بحران کو ایک دوسرے کے مفادات کا احترام کرتے ہوئے حل کریں اور اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ دونوں کو ہی ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
Article available in: English, French, Indonesian, Arabic