پاکستان میں پریشان کُن رجحان سے جان چھڑانے کا وقت
نیو آرک، دلآویئر: جِس سفاکیّت سے مُسلم کمیونٹیز ہمیشہ خوفزدہ رہتی ہیں وہ چار جنوری کو پاکستان کے صوبائی گورنر سلمان تاثیر کے بہیمانہ قتل کی صورت میں ایک بار پھر اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ سلمان تاثیر کو ان کے باڈی گارڈ نے قتل کیا جس کا کہنا ہے کہ اُس نے گورنر پنجاب کو توہینِ رسالت کے پاکستانی قانون کی مخالفت کرنے پر قتل کیا ہے۔ سلمان تاثیر کے قتل سے مُلک میں موجود بہت سی دیگراعتدال پسند آوازیں خاموش ہو جائیں گی اور حکومت بھی خوف کا شکار ہو جائے گی۔
اس تازہ ترین بحران کا آغاز ایک مسیحی خاتون آسیہ نورین سے ہوا تھا جس پر توہینِ رسالت کی مُرتکب ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور گواہوں کا کہنا تھا کہ اُس نے حضرت محمد کی توہین کی تھی۔ پاکستان کی ایک عدالت نے توہینِ رسالت کے قانون کے تحت فیصلہ دیتے ہوئے آسیہ نورین کو سزائے موت سُنائی ہے۔ سلمان تاثیر آسیہ کو معافی دلانے کے لئے سرگرم تھے اور بعض مذہبی رہنماؤں کی طرف سے اُنہیں آسیہ اور دیگر مذہبی اقلیتوں مثلاً احمدی فرقے کی حمایت کرنے پر دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔
پچھلے ہفتے مذہبی جماعتوں اور مساجد کے اماموں کی ایما پر ہزاروں افراد نے سڑکوں پر مظاہرہ کرتے ہوئے آسیہ کی سزائے موت پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ انسانی حقوق کے علمبردار اور بہت سے مُسلم سکالرز نے اِس صورت حال کی مذمت کی ہے لیکن سلمان تاثیر کے قتل کے بعد حکومت آسیہ کو معافی دینے اور اِس قانون کو منسوخ کرنے سے ڈر رہی ہے۔
اِس واقعے نے ایک بار پھر دو مسائل کو اُجاگر کیا ہے۔ پہلا مسئلہ ایسی بات کرنے اور ایسی سوچ رکھنے پر موت کی سزا دینے کا ہے جس پر مذہبی توہین کا لیبل چپکا دیا جائے حالانکہ یہ ایک ایسی سزا ہے جو رحم دِلی اور ہمدردی کے اسلامی تصوّرات سے متصادم ہے۔ بہت سے واقعات ایسے ہیں جن میں لوگوں نے مذہبی اقلیتوں کے افراد اور اپنے مخالف مسلمانوں سے انتقام لینے کے لئے اُن پر مذہبی توہین کا جھوٹا الزام لگایا اور توہینِ رسالت کے قانون کا غلط استعمال کیا۔ ان قوانین کا جتنا تواتر سے اور بے دھڑک ہو کر غلط استعمال کیا جاتا ہے وہ بذاتِ خود انہیں منسوخ کرنے کا معقول جواز ہے۔
یہ قوانین اگرچہ اسلام کے نام پر وضع کیے گئے تھے لیکن اسلام میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے اور شاید ہی مُسلم اکثریت والے کِسی دُوسرے مُلک نے انہیں نافذ کیا ہوگا۔ پاکستان ایک ایسی کم یاب مثال ہے جہاں مذہبی رہنما اکثر وبیشتر آسیہ جیسے بے بس لوگوں کی قیمت پر فوری شہرت اور اپنے پیروکاروں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے اِس قانون کا سہارا لیتے رہتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ تیزی سے زور سے پکڑتا ہوا یہ رجحان ہے کہ بعض مُسلم کمیونٹیز ہر اُس حدیث کو غیر مُستند قرار دے دیتی ہیں جس میں رواداری، ہمدردی یا رحم دِلی کی بات ہوتی ہے اور صرف ان چند گِنی چُنی احادیث کو ہی مُستند مانتی ہیں جن میں بعض مخصوص حالات میں طاقت کا مظاہرہ کرنے یا کسی کی جان لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ایسی روایت سُنائی جائے جس میں حضرت محمد کے عفو ودرگزر کا ذکر ہو تو بعض مُسلمان فوراً غیر یقینی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ماخذ بتانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لئے ہمدردی اور رحم دِلی غیر اسلامی صفات بن گئی ہیں۔
مثال کے طور پر ایک مقبول حدیث کے مطابق نبی اکرم جب بھی ایک غیر مُسلم عورت کے گھر کے سامنے سے گزرتے تھے تو وہ ان پر کوُڑا کرکٹ پھینک دیتی تھی۔ لیکن انہوں نے یا ان کے صحابہ میں سے کِسی نے بھی اُس عورت کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ ایک روز معمول کے برخلاف جب وہ عورت کوڑا پھینکنے کے لئے نہ آئی تو نبی اکرم اُس کے گھر تشریف لے گئے اور اُس کا حال دریافت کیا۔
نبی اکرم کی حیاتِ مبارکہ میں اُن کے دُشمنوں نے کئی بار اُن کی توہین کی لیکن اُنہوں نے ایک بار بھی اپنی بے عزّتی کا بدلہ لینے کے لئے کسی کی جان لینے کا حُکم نہیں دیا۔ بعض ایسے واقعات کا ذکر قرآن میں بھی ہے لیکن ان میں ظُلم کرنے والوں میں سے کِسی کو قتل کرنے کا حُکم نہیں دیا گیا۔
مذکورہ بالا روایات جن میں حضرت محمد کی رحم دِلی اور عفو ودرگزر کو اُجاگر کیا گیا ہے، مُسلم ورثے، موسیقی، بچّوں کی کہانیوں اور روزمرّہ گفتگو کا حصّہ ہیں۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کی جس صِفت پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے اور جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ اُس کی “رحیمی” یا رحمت ہے اور بعض احادیث کے مُستند ہونے پر پورا یقین نہ ہونے کی صورت میں میں یہ اُمید کرتا ہوں کہ مسلمان اُن احادیث پر زیادہ توجہ دیں گے جو رحم دِلی، عفو ودرگزر اور رواداری کی تلقین کرتی ہیں۔ رواداری اور رحم دِلی کے کوئی تباہ کُن نتائج نہیں ہوتے لیکن نفرت اور تشدد اکثر وبیشتر ایک لامُتناہی چکّر کو جنم دیتے ہیں۔
قرآن میں ارشاد ہے کہ خدا نے محمد کو ساری انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ہم آسیہ نورین کو کیسے یقین دلائیں گے کہ یہ بات بالکل صحیح ہے؟
Article available in: English, French, Indonesian, Arabic, Hebrew