پاکستان ایک نازک موڑ پر
واشنگٹن، ڈی سی– تین نومبر کو صدر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے آئین معطل کردیا اور عدالت ِ عظمٰی کوعملا” فوجی حراست میں لے لیا۔ ان کے اس فیصلے سے علاقے میں ایک ایسا بحران پیدا ہوگیا ہے جس کے عالمی سطح پر بھی شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان چند مسلمان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں کسی نہ کسی صورت میں جمہوری عمل ہمیشہ جاری رہا ہے۔ حتٰی کہ جب پاکستان میں فوجی آمروں کی حکومت تھی ( اور یہ آمریت باربار آتی رہی ہے؛ 1958 تا 1970، 1978تا 1988 1999 تا حال) تب بھی یہاں آزادئ صحافت اور آزادئ گفتار کے ساتھ فعال سیاسی جماعتیں اور غیر جانبدار عدلیہ موجود رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان میں غیرآزاد جمہوری حکومت کی بجائے آزاد آمرانہ حکومتیں بنتی رہی ہیں۔ فوجی حکومت میں بھی آزاد سیاسی اداروں کو قائم رکھنا ایک ایسی خاصیت ہے جسے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
جنرل مشرف کی طرف سے ایمرجنسی کا نفاذ لا محالہ پاکستان کی آزاد خیال عدلیہ کا تختہ الٹنے کی کوشش ہے۔ اکتوبر میں پرویز مشرف نے پاک فوج کے سربراہ کا منصب اپنے پاس رکھتے ہوئے صدارتی انتخاب جیتا تھا۔ تاہم ملکی آئین کی رو سے کوئی سرکاری ملازم انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ لہٰذا مشرف کو بھی سپہ سالار ہوتے ہوئے صدرکا انتحاب لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت تھا لیکن اس سے پہلے کہ عدالت اپنا فیصلہ سناتی، مشرف نے ایمرجنسی لگا دی۔ اس نے عدالت کا محاصرہ بھی کرلیا، خبروں کی آزادانہ اشاعت اور نشریات کو روکنے کیلئے ذرائع ابلاغ پر پابندی لگا دی اور ان سب کو گرفتار کرلیا جنہوں نے بحیثیت صدر اس کا انتخاب ناجائز اور غیرقانونی قرار دینے کیلئے عدالت ِ عظمٰی کا دروازہ کھٹکھٹانے کی جرأت کی۔
گزشتہ ایک سال کے دوران مشرف کی مقبولیت پاکستان اور واشنگٹن دونوں جگہ کم ہوئی ہے کیونکہ وہ ملک کے اندر اور باہر ہر جگہ بتدریج کم سے کم کارآمد ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ متشدد انتہاپسندی کا خاتمہ کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں جس میں حال ہی میں کم و بیش ساڑھے چار سو جانیں ضائع ہو ئی ہیں۔ قبائلی علاقوں میں طالبان کے حامیوں کے خلاف فوجی کارروائیوں اور لال مسجد والےمعاملے کے نتیجے میں مشرف کے خلاف لوگوں میں جتنی ناپسندیدگی اور غصہ پیدا ہوا ہے، پہلے کبھی نہ تھا۔ مشرف کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کا آلہ کار ہے جو دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ لڑرہا ہے۔ پاکستان میں اکثریت اس جنگ کو اسلام کے خلاف جنگ سمجھتی ہے۔
1999 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد مشرف نے معاشرتی استحکام قائم کیا اور تیزی سے بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتحال کو سنبھالا دیا۔ گیارہ ستمبر کے بعد بُش انتظامیہ کے ساتھ اس کے اتحاد کے بعد فوجی و اقتصادی امداد کی شکل میں اربوں ڈالر پاکستان میں آئے۔ اپنی پیشہ وارانہ فوجی تربیت کی وجہ سے مشرف نے بدعنوانی کا خاتمہ کیا اور مؤثر طرز حکمرانی کو فروغ دیا۔ تاہم پاکستان کے عوام مثبت تبدیلیوں کے عادی ہوگئے ہیں اور بھول چکے ہیں کہ ماضی کی جمہوری حکومتوں میں کیسی بدعنوانی اور بد نظمی تھی۔ مشرف اپنا اقتدار بچانے کیلئے جس طرح جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کررہےہیں، اس پر ان میں بے چینی اور عدم ِ اطمینان پایا جاتا ہے۔ حتٰی کہ سیکولر طبقہ اشرافیہ کے بعض لوگ جو ان کے غیر جمہوری اقدامات کی حمائیت کرتے تھے، ان کی سخت گیری پر ناراض نظر آتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو مشرف کے اسلام کے بارے میں روشن خیال تصور کی تعریف کرتے تھے۔ ان کے خیال میں مشرف ایک ایسی قوت کا نام ہے جس نے اگرچہ صدر بننے کیلئے جمہوریت سے انحراف کیا لیکن ملک میں سیکولرازم اور مذہبی آزادی کو فروغ دیا۔ تاہم اس کا نتیجہ پاکستان میں مزید اسلامی انتہاپسندی کی صورت میں نکلا۔
بیرونی دنیا میں پاکستان کو ایک ایسا ملک سمجھا جاتا ہے جو امریکہ کا اہم اتحادی ہے اور القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ میں صف ِ اوّل میں کھڑا ہے۔ جب 1999 میں پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو اسے امریکہ کے خلاف بغاوت قرار دیا جارہا تھا کیونکہ نواز شریف کو امریکہ اور صدر بل کلنٹن کا قریبی دوست سمجھا جاتا تھا۔ 2001 تک مغرب میں جنرل مشرف ایک ‘ناپسندیدہ شخصیت’ تھے لیکن اس کے بعد وہ روشن خیال اسلام اور اسلامی انتہاپسندی کے خلاف امریکی جنگ میں مسلمانوں کے تعاون کی علامت بن کر سامنے آۓ۔ بدلے میں امریکہ نے انہیں نہ صرف خوب فوجی اور اقتصادی امداد سے نوازا بلکہ ملک میں جمہوریت بحال کرنے کیلئے دباؤ بھی نہیں ڈالا۔
جب پاکستان میں انتخابات ہوئے اور چار میں سے دو صوبوں میں ایسی جماعتیں اقتدار میں آ گئیں جو سیاسی اسلام کے انتہاپسند انداز کو فروغ دینے کی خواہاں تھیں تو امریکہ کو اپنے اس اتحادی ملک میں جمہوریت کی بحالی کی صورت میں لاحق خطرات واضح طور پر نظر آگئے۔
جنرل مشرف اسلامی عسکریت پسندی کو دبانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوۓ۔ نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے مطابق القاعدہ نے خود کو گیارہ ستمبر سے پہلے والی حالت میں منظم کرلیا ہے۔ دوسری طرف طالبان پاکستان میں اڈّے قائم کرکے افغانستان میں مغربی افواج کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دریں حالات پاکستان امریکہ اور مغرب کے دفاع کیلئے انتہائی اہم ریاست بن گیا ہے۔ یہ حقیقت بھی مد ِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح اس ریاست کی ناکامی یا تباہی کی دفاعی حوالےسے بہت بڑی قیمت چکانا پڑے گی۔
گزشتہ کچھ عرصے میں واشنگٹن نے مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان مفاہمت کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے تاکہ جنرل مشرف صدر کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے بے نظیر کو وزیراعظم مقرر کریں اور اس طرح جمہوریت بھی بحال ہو جائے اور اسلام آباد میں سیکولر قوتوں پر مشتمل اتحاد برسرِ اقتدار آجائے۔
پاکستان میں ہنگامی حالت کا اعلان کرکے مشرف نےاس بار واشنگٹن کے خلاف انقلابی قدم اٹھایا ہے جس سے نہ صرف ملک میں جمہوریت بحال کرنے کی کوششوں کو دھچکا پہنچا ہے بلکہ طالبان طرز کی سیاسی اپوزیشن کو بھی ہلّہ شیری ملی ہے اوراس نے اپنے جارحانہ اقدامات سے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کو اس نازک صورتحال سے دوچار کرنے کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ جنرل مشرف خود ہیں۔ اپوزیشن کس حد تک آگے جاسکتی ہے، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
امریکہ جنرل مشرف کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا اور نہ ہی چھوڑے گا۔ ایمرجنسی نافذ کرکے مشرف نے بھلے ہی ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے لیکن امریکہ کو ناگواری سے ہی سہی، لیکن مزید استقامت کے ساتھ اس کے پیچھے کھڑا ہونا پڑے گا۔ اگر مشرف اور عدلیہ کے درمیان مفاہمت کرانے کا انتطام ہوجائے تو پاکستان کا حالیہ بحران ختم ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں بے نظیر بھٹو اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اور اگر وہ اس میں کامیاب ہوگئیں تو نہ صرف اندرون ِملک بلکہ واشنگٹن کی نظر میں بھی ان کی اہمیت دو چند ہوجائے گی۔
Article available in: English, French, Indonesian, Arabic