حضرت محمدﷺ کا عیسائیوں کے ساتھ عہد
نیو آرک، ڈیلاویئر: مسلمان اور عیسائی دونوں مِل کر دنیا کی نصف آبادی کے برابر ہوتے ہیں۔ اگر یہ دونوں امن کے ساتھ رہتے تو ہم عالمی امن کی طرف جانے والا آدھا راستہ طے کر چکے ہوتے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کی سمت میں ایک چھوٹا سا قدم یہ ہو سکتا ہے کہ ماضی کے مُثبت قصّوں کو بار بار دہرایا جائے اور ایک دوسرے کو راکھشس قرار دینے کی کوشش سے اجتناب برتا جائے۔
میری تجویز ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کو ایک ایسا وعدہ یاد دلایا جائے جو حضرت محمد ﷺ نے عیسائیوں کے ساتھ کیا تھا۔ اس عہد کے بارے میں جاننے سے عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کے رویّے پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ مسلمان عام طور پر اپنے پیغمبر کی مثال کا احترام کرتے اور خود بھی اس پر عمل کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ 628 عیسوی کی بات ہے جب سینٹ کیتھرین کی خانقاہ کا ایک وفد نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور ان سے پناہ دینے کی درخواست کی۔ جس پر آپ نے انہیں حقوق کا پورا ضابطہ عطا کیا جسے میں یہاں مِن و عِن نقل کر رہا ہوں۔ سینٹ کیتھرین کی خانقاہ جدید مصر میں جبلِ سینا کے دامن میں واقع ہے اور اسے دنیا کی قدیم ترین خانقاہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں عیسائی مخطوطات کا بہت بڑا ذخیرہ محفوظ ہے جس سے بڑا ذخیرہ صرف ویٹی کن میں ہے۔ اس خانقاہ کو عالمی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں پر عیسائیت کی سب سے پرانی اور نایاب تصاویر بھی موجود ہیں۔ یہ عیسائی تاریخ کا ایک ایسا خزانہ ہے جو چودہ سو سال سے مسلمانوں کی حفاظت میں سنبھال کر رکھا گیا ہے۔
سینٹ کیتھرین کے ساتھ کیا گیا عہد:
” یہ پیغام محمد ابن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے ساتھ، چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک، ایک عہد ہے کہ ہم اُن کے ساتھ ہیں۔ بے شک میں، میرے خدمتگار، مددگار اور پیروکار ان کا تحفظ کریں گے کیونکہ عیسائی بھی میرے شہری ہیں؛ اور خدا کی قسم میں ہر اس بات سے اجتناب کروں گا جو انہیں ناخوش کرے۔ ان پر کوئی جبر نہیں ہوگا۔ نہ ان کے منصفوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا اور نہ ہی ان کے راہبوں کو ان کی خانقاہوں سے۔ ان کی عبادت گاہوں کو کوئی بھی تباہ نہیں کرے گا، نقصان نہیں پہنچائے گا اور نہ وہاں سے کوئی شئے مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں لے جائی جائے گی۔ اگر کسی نے وہاں سے کوئی چیز لی تو وہ خدا کے عہد کو توڑنے اور اس کے نبی کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا۔ بے شک وہ میرے اتحادی ہیں اور انہیں ان تمام کے خلاف میری امان حاصل ہے جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ کوئی بھی انہیں سفر کرنے یا جنگ پر مجبور نہیں کرے گا۔ ان کے لئے جنگ مسلمان کریں گے۔ اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان سے شادی کرے گی تو ایسا اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو گا۔ اُس عورت کو عبادت کے لئے گرجا گھر جانے سے نہیں روکا جائے گا۔ ان کے گرجا گھروں کا احترام کیا جائے گا۔ انہیں گرجا گھروں کی مُرمت یا اپنے معاہدوں کا احترام کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ (مسلمانوں کی) قوم کا کوئی فرد روزِ قیامت تک اس معاہدے سے رُوگردانی نہیں کرے گا۔”
اس ضابطے کا پہلا اور آخری جملہ انتہائی اہم ہے۔ یہ جملے اس عہد نامے کو ابدی اور کائناتی حیثیت دیتے ہیں۔ حضرت محمدﷺ نے اس پر زور دیا تھا کہ مسلمان عیسائیوں کے ساتھ ہیں چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک۔ اس طرح واضح طور پر انہوں نے مستقبل میں اِس معاہدے کو صرف سینٹ کیتھرین تک محدود رکھنے کو مسترد کر دیا۔ مسلمانوں کو روزِ حشر تک اس وعدے کی تعمیل کرنے کا حُکم دے کر انہوں نے مستقبل میں اس سے منہ پھیرنے کی کسی کوشش کا راستہ بند کر دیا ہے۔
یہ حقوق ناگزیر ہیں۔
نبیﷺ نے سارے عیسائیوں کو اپنا اتحادی قرار دیا تھا اور عیسائیوں کے ساتھ بُرا سلوک روا رکھنے کو خدا کے عہد سے روگردانی سے تعبیر کیا تھا۔
اس چارٹر کا ایک بے مثال پہلو یہ ہے کہ اس میں عیسائیوں پر ان سہولیات سے لطف اندوز ہونے کے لئے کوئی شرط عائد نہیں کی گئی۔ ان کا صرف عیسائی ہونا ہی کافی ہے۔ ان سے اپنا عقیدہ تبدیل کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا، انہیں کسی قسم کا معاوضہ ادا نہیں کرنا اور نہ ہی ان پر کوئی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ یہ حقوق کا ایک ایسا ضابطہ ہے جو فرائض کے بغیر ہے۔
یہ دستاویز جدد دور میں کیا گیا انسانی حقوق کا معاہدہ نہیں ہے لیکن 628 عیسوی میں لکھا جانے کے باوجود یہ واضح طور پر ایک شخص کے جائیداد رکھنے کے حق، مذہبی آزادی، کام کرنے کے حق اور جان کی سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔
مجھے پتہ ہے کہ بہت سے قارئین ضرور یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ” تو پھر کیا ہوا؟”
اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ جو لوگ مسلمانوں اور عیسائیوں میں نفاق کے بیج بونا چاہتے ہیں وہ ان موضوعات پر توجہ دیتے ہیں جو ان میں پھوٹ ڈالتے ہیں۔ ان کا سارا زور نزاع کا باعث بننے والے معاملات پر ہوتا ہے۔ لیکن جب عیسائیوں کے ساتھ حضرت محمد ﷺ کے وعدے جیسے وسائل پر توجہ دی جائے اور انہیں اجاگر کیا جائے تو دونوں اقوام کے درمیان پُل تعمیر ہوتے ہیں۔
یہ عہد مسلمانوں کو طبقاتی نا رواداری سے بالاتر ہونے اور عیسائیوں کے لئے خیر سگالی کے جذبات کی آبیاری کرنے کی ترغیب دیتا ہے جو اپنے اندر اسلام یا مسلمانوں کا خوف چھپائے بیٹھے ہوں گے۔
جب میں اسلامی وسائل کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے ان میں مذہبی رواداری اور دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی نادر مثالیں نظر آتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ خیر کی تلاش اور دوسروں کے ساتھ بھلا کرنے کی صلاحیت ہم سب کے اندر موروثی طور پر موجود ہے۔ جب ہم اپنے اندر پہلے سے موجود اس جذبے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو دراصل اپنی بنیادی انسانیت سے منہ پھیرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مجھے اُمید ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم دوسرے لوگوں کی اقدار، ثقافتوں اور تاریخ میں کوئی ایسی چیز تلاش کرنے کا وقت ضرور نکال لیں گے جو مثبت ہو اور جس کی ہم تعریف کر سکیں۔
Article available in: English, French, Indonesian, Arabic