ایک نیا جمہوری پاکستان
نیویارک، ڈیل اویئر: انتخابات کے نتائج آچکے ہیں اور پریشان کن واقعات، ہنگامی حالات ، قتل و غارت اور خودکش حملوں کی لہر کے بعد بالآخر پاکستان دنیا کو امید کا پیغام بھیج رہا ہے۔ حزب ِ اختلاف کی دو جماعتوں نے کافی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کئے ہیں جس سے لگ رہا ہے کہ دونوں جماعتیں مل کر حکومت بنائیں گی۔ یہ دونوں سیاسی پارٹیاں طویل عرصے سے ایک دوسرے کی حریف ہیں اور خدشہ ہے کہ زیادہ دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکیں گی۔ لیکن اگروہ اپنے سیاسی مفادات کو کچھ عرصے کے لئے نظر انداز کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ایک مستحکم حکومت قائم کر سکتی ہیں جو پاکستان کو کم و بیش ایک عشرے پر پھیلی ہوئی فوجی آمریت سے نکال کرجمہوری اسلوب ِ حکمرانی اپنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
پاکستان پیپلز پارٹی، جس کی قیادت اس وقت مرحومہ وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے، نے حالیہ قومی انتخابات میں سب سے زیادہ 113 نشستیں(بشمول خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں) حاصل کی ہیں۔ بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا دعوٰی ہے پیپلز پارٹی کو اتنی نشستیں بے نظیر بھٹو کے قتل پر لوگوں میں پیدا ہونے والی ہمدردی کی وجہ سے ملی ہیں تاہم یہ نتائچ 2002 کے انتخابات سے بہت زیادہ بہتر نہیں ہیں جب اس جماعت نے مجموعی طور پر 81 نشتیں حاصل کی تھیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ پیپلز پارٹی کوملک کے چاروں صوبوں میں پذیرائی ملی ہے جس سے ثابت ہوا کہ یہ ایک ملک گیر قوت ہے۔
دوسری جانب میاں نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مجموعی طور 84 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جس سے وزیر ِ اعظم منتخب کرنے کے عمل میں ان کا کردار انتہائی اہم ہوگیا ہے۔ ان کی مدد کے بغیر کوئی سیاسی اتحاد حکومت نہیں بنا سکتا اور اس طرح انہیں اپنی مرضی کی سیاسی شرائط رکھنے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔ بادی النظر میں اس وقت میاں نواز شریف کا اولین مقصد صدر پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا یا بصورت ِ دیگر ان کا مواخذہ کرنا ہے۔
ان انتخابات کا ایک دلچسپ پہلو کٹرمذہبی جماعتوں کا تقریباً مکمل صفایا ہونا ہے حالانکہ 2002 میں یہ جماعتیں ایک بڑی قومی قوت کے طور پر ابھری تھیں اورچار میں سے دو صوبوں میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ملک میں جمہوریت قائم کرنے میں پُر عزم ہیں۔ پیپلز پارٹی بنیادی طور پر سیکولر ہے جبکہ مسلم لیگ کا رجحان ہلکا سا اسلامی ہے جس کی وجہ سے یہ مغربی انداز کی جمہوریت اور سیاسی اسلام کے درمیان واسطے کا کردار کامیابی سے ادا کرسکتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ نواز شریف حکومتی معاملات میں فوج کے کردار کو محدود کرنے کے عزم کی وجہ سے مشہور ہیں اور ملٹری ڈکٹیٹرشپ کے لئے ناپسندیدگی کے شدید جذبات رکھتے ہیں۔
زیادہ تر علاقوں میں ووٹروں نے ان امیدواروں کو بالکل نظرانداز کر دیا جو مذہب اور سیاست کو اکٹھا رکھنے والے پلیٹ فارم سے انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ کٹر مذہبی جماعتیں ان انتخابات میں صرف تین نشتیں حاصل کر سکی ہیں جبکہ 2002 میں ان کے 59 امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ حالیہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کی کارکردگی سے بہت سے اعتدال پسندوں کےاس خیال کو تقویت ملی ہے کہ 2002 میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو ملنے والے ووٹ امریکہ مخالفت میں ڈالے گئے تھے اور اس اتحاد کی غیرمعمولی مقبولیت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ لوگ ایک ایسی حکومت چاہتے تھے جس کی بنیاد اسلامی اصولوں کی غیرلچکدار تشریح پر رکھی گئی ہو۔
پچھلے سال تو ایسا لگتا تھا جیسے انتہاپسند قوتیں پاکستان پر قابض ہو جائیں گی۔ بم دھماکوں میں پانچ سو سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے، بے نظیر بھٹو قتل ہوگئیں اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کے سینکڑوں اہلکار سرحدی صوبوں میں طالبان کی حلیف قوتوں کے ہاتھوں مارے گئے یا قیدی بنا لئے گئے۔ امن و امان کی صورتحال اس حد تک خراب ہوگئی تھی کہ لگتا تھا انتخابات جو پہلے ایک بار ملتوی ہوچکے تھے، شاید کبھی ہو ہی نہیں پائیں گے۔
لیکن اب عوام میں رجائیت کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان ایک اہم موڑ مُڑ چکا ہے۔ سیکولر اور اعتدال پسند قوتیں صرف جیت نہیں رہیں بلکہ بہت زورو شور سے جیت رہی ہیں۔ یہ الیکشن مشرف کی پارٹی کے لئے واضح شکست کا پیام لایا جس نے گزشتہ چند سال سے جمہوریت کو مذاق بنا رکھا تھا۔ کٹرمذہبی قدامت پسند جماعتوں کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔
ایک بم دھماکے کے سوا انتخابات انتہائی پرامن ماحول میں ہوئے۔ رجسٹرڈ ووٹروں کی 45 فیصد تعداد نے اپنا حق ِ رائے دہی استعمال کیا جو اس امر کا عکاس ہے کہ سیکورٹی کے خدشات کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلے اور ووٹ ڈالا۔ شاید یہ سیکورٹی فورسز اور پاکستانی طالبان کے درمیان اس انڈرسٹینڈنگ کا نتیجہ تھا کہ وہ انتخابات کو سبوتاژ نہیں کریں گے۔
پاکستان کے مسائل یقیناً راتوں رات ختم نہیں ہو گئے۔ اب بھی عوام میں ایسے عناصر موجود ہیں جو طالبان اور القاعدہ کی حمایت کرتے ہیں۔ ووٹروں کی نصف سے زیادہ تعداد نے الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالا۔ لیکن خود ساختہ خاموشی اختیار کرنے والے اعتدال پسندوں نے بالآخر زبان کھولی ہے اور ان کا امید اور بہتر مستقبل کا پیغام پوری دنیا نے سنا ہے۔ ایک مستحکم اور جمہوری پاکستان کی جدوجہد میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سیکولر اور مذہبی طبقوں کو ایک ارفع مقصد کے حصول کے لئے اکٹھا کر سکتے ہیں۔
Article available in: English, French, Indonesian, Arabic