مذہبی جنونیت اور تشدد کی مذمت میں سعودی مفتی اعظم کا خطبہ حج
نیو آرک، دلآویئر: ہر سال لاکھوں مسلمان حج کی تین روزہ عبادت کے لئے مکّہ مکرّمہ جاتے ہیں جس میں آخری روز دیا جانے والا خطبہ خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس سال حج کا خطبہ ساری مُسلم دنیا میں خاص طور پر بہت توجہ سے سُنا گیا ہے۔ سیکڑوں اخبارات میں اس خطبے کے اقتباسات شائع ہوئے جن میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت اور اعتدال پسندی کی وکالت کی گئی ہے۔ ای میل کے ذریعے اس خطبے کی ویڈیو انگریزی ترجمے کے ساتھ پوری دنیا میں پھیلا دی گئی ہے اور اسے یُو ٹیوب پر بھی پوسٹ کر دیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مُسلم دنیا نے اس خطبے کے پیغام کو بڑے جوش کے ساتھ اپنا لیا ہے۔
بیشتر مسلمانوں کے لئے حج ایک ایسا تجربہ ہے جو انہیں یکسر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ شہری حقوق کی تحریک کے افریقی نژاد امریکی رہنما میلکم ایکس نے حج میں شریک ہونے کے بعد سفید فاموں کے خلاف اپنا اندازِ فکر تبدیل کر لیا تھا اور بعدازاں انہوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مُسلم نوجوانوں پر گہرے اثرات مُرتب کیے تھے۔
اس سال حج کا خطبہ سعودی عرب کے مُفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ نے دیا تھا۔
ایک گھنٹہ کے اس خطبہ میں انہوں نے معمول کے مطابق مسلمانوں کو اتحاد اور پرہیز گاری کی تلقین کی اور اُنہیں خدا سے ڈرتے رہنے، شِرک سے بچنے اور اپنی زندگی روزِ محشر کو ذہن میں رکھتے ہوئے بسر کرنے کی یاد دہانی کرائی۔ مفتی اعظم نے مسلمانوں پر ماحولیات کا تحفظ کرنے کے لئے بھی زور دیا۔ انہوں نے اُن اسلامی اقدار پر بات کی جو ماحولیاتی توازن کی دیکھ بھال کرنے کی ہدایت کرتی اور قدرتی وسائل کو احتیاط اور دانش مندی کے ساتھ استعمال کرنے کا پابند بناتی ہیں۔
خطبے کا کچھ حصّہ سلامتی سے متعلق معاملات کے بارے میں تھا۔ اُنہوں نے مُسلم کمیونٹیز کی فلاح وبہبود کے لئے سیکیورٹی کی ضرورت پر روشنی ڈالی اور مجرموں کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی اطاعت پر بھی زور دیا تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان کی مراد کون سے حکمرانوں سے تھی کیونکہ سیاسی موضوعات کے حوالے سے انہوں نے کھُل کر بات نہیں کی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر انسان کی سلامتی کا احترام نہ کیا جائے تو کیا حالات پیدا ہوں گے: عورتیں اور بچّے مصیبت میں گرفتار ہو جائیں گے، ہر طرف بد نظمی پھیل جائے کی اور امن وخوشحالی غائب ہو جائے گی۔ شیخ عبدالعزیز نے کہا کہ اسلام رحم دِلی اور اعتدال پسندی کا مذہب ہے اور تشدد، نفرت اور انتہاپسندی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ اسلام کا مقصد ہر صورت میں امن اور سلامتی کو پھیلانا ہے۔ انہوں نے تمام مُسلم کمیونٹیز پر زور دیا کہ وہ اسلام کی اخلاقیات اور تعلیمات پر کاربند رہیں۔
بعدازاں انہوں نے اسلامی قانون میں سلامتی کے تصوّر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے اور اس میں اقتصادی، سماجی، سیاسی، دانشورانہ، ماحولیاتی، روحانی اور میڈیا سے متعلق سبھی پہلو شامل ہیں۔
دانشورانہ سلامتی پر بات جاری رکھتے ہوئے مُفتی اعظم نے تمام مُسلمانوں کو راہِ راست سے بھٹکنے خصوصاً انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت کے خلاف محتاط رہنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ میڈیا اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حالیہ پیش رفت کے نتیجے میں خطرناک نظریات اور سائبر دہشت گردی پھیلی ہے۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم کو بہت زیادہ روشن خیال دانشور نہیں سمجھا جاتا۔ پچھلے سال سعودی عرب میں بچپن کی شادی کے حوالے سے اُس وقت شدید تنازعہ پیدا ہو گیا تھا جب ایک جج نے ایک آٹھ سالہ بچّی کی 47 سالہ آدمی سے شادی کو باطل قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اُس وقت شیخ عبدالعزیز نے اس پر اصرار کیا تھا کہ دَس سال عُمر کی لڑکیاں شادی کے قابل ہو جاتی ہیں اور اس سے انکار کرنا درحقیقت لڑکیوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اگر وہ کوئی رحم دلانہ اور محتاط بیان جاری کر دیتے تو اس سے کم عُمر مُسلمان لڑکیوں اور ساری دنیا کی عورتوں کے حالات بہتر بنانے میں بہت مدد مل سکتی تھی۔
شیخ عبدالعزیز وہابی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جو سخت روایت پسند ہے اور ترقی پسند تبدیلی کے لئے زیادہ پرجوش نہیں ہے۔ شاید اسی لئے ان کی طرف سے اعتدال پسندی کی پُکار کو انتہائی غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ایک لحاظ سے ان کا یہ پیغام مُسلم معاشرے کے اُن طبقات تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے جن پر معمول کے مطابق تشدد کی مذمت کرنے والے دیگر کشادہ ذہن مُسلم سکالرز اثرانداز نہیں ہو سکتے۔
اُمید ہے کہ مُسلمانوں کے مقدّس ترین مقامات اور سب سے متبرک موقع پر تشدد اور انتہا پسندی کی مُذمت کا پیغام مُسلمانوں کے تاریک ترین علاقوں اور سب سے سخت گیر گروہوں تک بھی پہنچے گا۔ مجھے توقع ہے کہ جس طرح حج نے میلکم ایکس کی انتہا پسندی کا علاج کیا تھا اُسی طرح جو مُسلم نوجوان بنیاد پرست سیاست میں اُلجھے ہوئے ہیں وہ بھی اس خُطبے سے متاثر ہوں گے اور اپنی زندگیوں میں توازن اور اعتدال پسندی پیدا کریں گے۔
Article available in: English, French, Indonesian, Arabic