کیا مشرق وسطی میں تبدیلی کا موسم “پولٹزر پرائز” سے نظرانداز ہو گیا؟
نیوارک، ڈیلاور ۔ چند دن قبل میں انقرہ میں تھا جہاں میں وزیراعظم رجب طیب اردگان کے ایک سینیئر مشیر کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا۔ باتوں کے دوران مین نے ان کے دفتر کے باہر ایک زوردار دھماکہ سنا جیسے کسی نے نزدیک ہی بندوق سے گولی چلائی ہو۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں سہم گیا جب کہ میرا دوست اور ان کے معاون شور کے باوجود ٹس سے مس نہ ہوئے۔ “یہ صرف ایک صوتی بم تھا”، انہوں نے کہا۔ بظاہر لگتا تھا کہ ایسی چیزیں یہاں عام ہوتی ہیں۔ ہم کھڑکی کے قریب کھڑے ہو گئے اور دوڑ کر آتی پولیس کی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے ان کے سائرن سنے۔ میں نے اپنے پریشان دل کو اس سرگوشی سے تسلی دی، “پرسکون ہو جاؤ، یہ انقرہ ہے، کابل یا بغداد نہیں”۔
دھماکے ہماری دنیا میں معمول کی ایک نئی چیز ہیں۔ تشدد بلکہ سنگین تشدد ہماری زندگیوں کا اتنا بڑا حصہ بن چکا ہے کہ کچھ حوالوں سے ہم نے اس کا جشن منانا شروع کر دیا ہے۔
افغان اخباری فوٹوگرافر مسعود حسینی 6 دسمبر2011 کو کابل کی ایک خانقاہ میں تصویریں لے رہا تھا جب اس نے ایک زوردار دھماکہ سنا۔ چند دہشت ناک لمحات کے بعد وہ مردہ مردوں، عورتوں اور بچوں کے درمیان کھڑی دس سالہ لڑکی ترانہ اکبری کی تصویریں بنا رہا تھا۔ کابل کی اس شیعہ خانقاہ پر ایک خودکش بمبار نے حملہ کیا تھا جس میں 70 افراد مارے گئے۔ ترانہ کی روح اور حسینی کا کیمرہ اس خون آلود حقیقت کے چشم دید گواہ تھے۔
حسینی نے ترانہ کی جو تصویریں بنائیں ان میں سے ایک کو پولٹزر پرائز ملا۔ حسینی جیسے لوگ اپنی خدمات اور دلیری کے لئے ہراس انعام کے مستحق ہیں جو معاشرہ انہیں دے سکتا ہے۔ آج وہ جو کہانیاں بتا رہے ہیں کل وہ ہماری تاریخ بنیں گی۔
اس کی اہمیت کے باوجود میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت یہ تصویر پولٹزر پرائز کی مستحق ہے۔ میرے محسوسات کا تعلق حسینی کی اپنی کامیابیوں سے نہیں بلکہ ان بڑے مسائل سے ہے جو اس بات کا تعین کررہے ہیں کہ ہم کس چیز کو اہمیت دیتے ہیں۔
کہاوت ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ کے برابر ہے۔ اور انعام یافتہ تصاویر تو مکمل حکایات ہیں۔ حسینی کی تصویر اب مسلمان دنیا کے حوالے سے مغرب کی نہ ختم ہونے والی کشش میں ایک نیا باب بن گئی ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ تصویر کی ڈرامائی نوعیت اسے انعام کا ایک مضبوط امیدوار بناتی ہے لیکن اس کے پس پشت کہانی اس وقت انعام کے لائق نہیں ہے۔
آسکر، نوبل اور پولٹزر جیسے انعامات اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ہم کیسے تاریخ وضح کر رہے ہیں۔ یہ انعامات ضرور صلاحیت کا اعتراف کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی درجہ بندی بھی کرتے ہیں اور یہ عکاسی کرتے ہیں کہ مغرب کیسے دنیا کو سمجھنا اور پیش کرنا چاہتا ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ کے لئے 2009 کا نوبل امن انعام ان چند نمایاں مثالوں میں سے ایک ہے جو ہمیں یہ یاد کراتی ہیں کہ یہ ایوارڈ صرف انعامات نہیں بلکہ حکایات ہیں۔ صدر اوبامہ نے اس وقت تک انعام کا حق دار بننے کے لئے کوئی خاص کام نہیں کیا تھا لیکن 2008 کے انتخابات میں ان کی فتح کو بہت سے لوگوں نے اس وعدے کے طور پر دیکھا کہ عالمی معاملات پر امریکی مباحثہ تبدیل ہو گا اور عالمی امن کو فروغ حاصل ہو گا۔ یہ ایک ایسا پیغام تھا جو اس انعام سے مزید طاقتور بن گیا۔
تاہم 2011 میں سب سے نمایاں حکایت دہشت گردی نہیں بلکہ جمہوریت کی جستجو تھی۔ 2011 مسلمان تشدد کے باعث نمایاں نہیں ہوا بلکہ یہ آزادی کے لئے مسلمانوں کی اجتماعی پکار یعنی بہار عرب کے باعث خصوصیت کا حامل ہے۔ جوش، عہد اور امید سے بھرپور میدان تحریر کی تصاویر ان تصاویر کی نسبت زیادہ اعتراف تعریف کی مستحق ہیں جو بموں کے پھٹنے، میزائلوں کے گرنے اور ڈرون کے حملوں کے بعد کے مناظر پر مشتمل ہوتی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ 2011 میں کمیٹی برائے نوبل امن انعام نے لائیبیریا کی ایلن جانسن سرلیف اور لیماہ گبووی اور یمن کی توکل کرمان کو انعام دے کر امن ساز خواتین کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے تاریخ کی رو کی پیروی کی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ بدقسمتی سے پولٹزر پرائز نے اس برس تبدیلی کے موسم کو نظر انداز کر دیا۔
Article available in: English, French, Indonesian, Arabic, Hebrew