میلکم ایکس کی میراث سالوں بعد بھی زندہ ہے
نیوارک، ڈیلاور ۔ امریکی شہری فروری کے مہینے کو سیاہ فام تاریخ کے مہینے کے طور پر مناتے ہیں۔ 1965 میں اسی مہینے شہری حقوق کے فعالیت پسند اور مسلمان ہونے والے سابق پادری، افریقی امریکی میلکم ایکس کا انتقال ہوا۔ ان کی روایت میرے سمیت متعدد امریکی مسلمانوں پر اثر انداز ہوئی ہے اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے ایک جیسی اہمیت کی حامل ہے۔
کوئی شخص بھی سیاہ فاموں کی تکالیف کی شدت سے آگاہ ہوئے بغیر امریکہ میں افریقی امریکی کمیونٹیز کی حالت کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ دنیا کے اس امیر ترین ملک میں سیاہ فام امریکیوں میں غربت کی شرح کسی بھی دوسرے گروپ سے زیادہ ہے۔ وائٹ ہاؤس میں ایک سیاہ فام صدر کی موجودگی کی تاریخ ساز حقیقت کے باوجود سیاسی طور پر سیاہ فام امریکی عموماٰ محرومیوں کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی سینیٹ میں کوئی افریقی امریکی نہیں۔ اگر نسل پرستی پر مبنی ناانصافی کی بات کی جائے تو ہم ابھی تک امریکہ کی آزادی کے ابتدائی دنوں کی صورت حال میں ہیں۔
میلکم ایکس کی زندگی کی کہانی جانی پہچانی ہے۔ اس کی پیدائش ایسے والدین کے ہاں ہوئی جو شہری حقوق کے فعالیت پسند تھے لیکن باپ کی وفات اور ماں کے دماغی امراض کے ہسپتال میں داخلے کے بعد وہ چھوٹے موٹے جرائم میں پڑ گیا۔ پھر جیل جانے پر اسے نیشن آف اسلام کی شکل میں مذہب، شناخت اور مقصد ملا جو کہ سیاہ فاموں کی آزادی اور اور گوروں سے ان کی علاحدگی کے لئے کام کرنے والی ایک مسلمان تحریک تھی۔ سماجی، ثقافتی اور معاشرتی ساخت میں موجود آزمائشوں کے ماحول میں میلکم ایکس کی ایک چھوٹے سے مجرم سے ملک بھر میں معروف سیاہ فام مسلمان کے طور پر تبدیلی بذات خود کامیابی کی ایک داستان ہے۔
میلکم ایکس کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو تبدیلی کی یہ قوت ہے، جس کا وہ مجسم اظہار تھا۔ اس نے یہ محسوس کیا کہ کوئی بھی سیاہ فام نسلی کمتری سے اس وقت تک صحیح معنوں میں آزاد نہیں ہو گا جب تک نسل پرستی کے استبداد سے اجتماعی چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاتا۔
افسوسناک طور پر نیشن آف اسلام کے زیر اثر میلکم ایکس نے نسلی علاحدگی کی وکالت کی اور سفید فام لوگوں کو لازمی برائی کے طور پر پیش کیا۔ سیاہ فام لوگوں کی عزت نفس کی بحالی کے ایک ذریعے کے طور پر اس نے علاحدگی پسند قومیت کی تبلیغ کی۔
بعدازاں اس کو خود اپنے نظریے میں پنہاں ناانصافی کا اندازہ ہونا شروع ہو گیا۔ باہر سے درپیش شدید مخالفت اور آزمائشوں کے مدمقابل بھی میلکم ایکس کی تنقیدی دروں بینی کو میں بہت ہی متاثرکن پاتا ہوں۔ اس نے اپنی تحریک کی اخلاقی ناکامی کا ادراک کر لیا۔ نیشن آف اسلام کی حقیقت جاننے پر مایوس ہو کر اس نے 1964 میں ایک نئے رستے کی تلاش میں اسے چھوڑ دیا۔
اسی سال وہ حج کے لئے مکہ گیا جہاں پہلی دفعہ اس نے اسلام کے اندر موجود نسلی تنوع کا مظاہرہ دیکھا۔ مسلمانوں کے ایک دوسرے کے تعامل کے طریقوں میں اس نے نسلی تعصب کی واضح غیر موجودگی دیکھی اور اس تجربے نے میلکم کو سکھایا کہ مختلف نسلوں کے لوگ باہم اکٹھے رہ سکتے تھے۔ آفاقی اخلاق کے اس فیصلہ کن تجربے کے بعد میلکم ایکس ﴿جس نے اپنے آپ کو الحاج مالک الشہباز کہنا شروع کر دیا تھا﴾ نے افریقی نسل اور ثقافت پر مرکوز اپنے سیاسی نقطہ نظر کے آفاقی اسلام پر اپنے ایمان کے ساتھ توازن کی جستجو شروع کر دی۔
مکہ سے امریکہ لوٹنے والا الشہباز ایک تبدیل شدہ فرد تھا۔ اگرچہ وہ ابھی تک سیاہ فاموں کی آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھا لیکن اس کے غصیلے نسلی خطبات اور انداز کی جگہ انصاف کے لئے ایک آفاقی طلب نے لے لی تھی۔ اب اس کا ایمان تھا کہ نسلی نفرت اور تسلط سے پاک امریکہ اور دنیا کی تعمیر کے لئے وہ غیرمسلموں اور سفید فاموں کے ساتھ شراکت دار ہو سکتا تھا۔ یہ پیغام پھیلانے کے لئے اس نے متعدد کالجوں میں تقریریں کیں۔ بدقسمتی سے الشہباز کو اپنی چالیسویں سالگرہ سے قبل قتل کر دیا گیا۔
افریقی امریکیوں کے لئے ایک خصوصی تحریک ہونے کے ساتھ ساتھ الشہباز امریکہ اور دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کا ہیرو ہے۔ اس نے لوگوں کو سکھایا ہے کہ کیسے اپنے لئے فخر اور وقار کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے وہ ایک ایسا پل ہے جس نے روحانی طور پر امریکہ کو مسلمان دنیا کے ساتھ جوڑا۔ امریکیوں کے لئے وہ ان کی قوم کے بانیوں میں سے ایک ہے۔ وہ بھلے اس قوم کے قیام سے دو سو سال بعد منظرعام پر ابھرا ہو لیکن ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور صدر اوبامہ کی طرح اس نے اس قوم کے افضل ترین اصول کو مزید قابل یقین بنایا ہے کہ تمام انسان برابری کی بنیاد پر تخلیق ہوئے ہیں۔
Article available in: English, French, Indonesian, Arabic, Hebrew